Constitution

پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کا دستور(ترمیم شدہ) 2023
جنرل کونسل اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس‘15 جون 2023
ابتدائیہ

پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ اور ان کی مجالس قائمہ کی کوریج پر مامور صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ہے جسے پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن(پی آ ر اے) پاکستان‘ کہا اور لکھا جاسکے گا پی آر اے مکمل طور پر آزاد اور خود مختار صحافتی تنظیم ہوگی جو نہ تو کبھی دوسری صحافتی تنظیم کے زیر نگین ہوگی اور نہ اس کا کسی دوسری صحافتی تنظیم سے کبھی الحاق یا انضمام ممکن ہوگا تنظیم کا آئینی سربراہ صدر جب کہ انتظامی امور کا نگران سیکرٹری ہوگا پی آر اے کا بنیادی مقصد اپنے ممبرز کو پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی‘ سہولیات کی فراہمی‘ استعداد کار کی بہتری کے لیے پیشہ وارانہ تربیت اور سازگار ماحول کی فراہمی ہوگا پی آر اے دونوں ایوانوں کی پریس گیلریوں کے نظم و نسق کے ساتھ ممبرز کے اندر ڈسپلن کے قیام کی ذمہ دار ہوگی‘ پی آر اے کا دائرہ کار صرف پارلیمنٹ ہاؤس اور عوام کے منتخب کردہ اداروں کے اندر تک محدود ہوگا پی آر اے ان اداروں سے باہر نہ تو کسی قسم کی احتجاجی سیاست میں ملوث ہوگی اور نہ کسی تنظیم کی احتجاجی سرگرمیوں میں کبھی حصہ دار بنے گی‘ پی آر اے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ‘ سینیٹ سیکرٹریٹ‘ منتخب اداروں‘ منتخب ممبرز اور حکومت کے ساتھ روابط کے ذریعے اپنے ممبرز سمیت صحافی برادری کے بنیادی حقوق اور مفادات کے تحفظ اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرے گی

آرٹیکل……1
تنظیمی ڈھانچہ
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن‘ صدر‘ نائب صدر‘سیکرٹری‘ ایک جائنٹ سیکرٹری‘ سیکرٹری مالیات‘ سیکرٹری اطلاعات اور گورننگ باڈی کے سات ممبرز پر مشتمل ہوگی‘ گورننگ باڈی کے سات ارکان کا براہ راست انتخاب ہوگا

آرٹیکل……2
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کا انتخاب اور اہلیت
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کے عہدیداران انتخاب کے ذریعے منتخب کیے جائیں گے اور ہر دو سال کے بعد انتخاب ہوگا‘ منتخب عہدیداروں کی مدت‘ الیکشن کمیٹی کی جانب سے انتخابی نتائج کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کی تاریخ سے شروع ہوگی کسی بھی دوسری صحافتی تنظیم یا پریس کلب کا عہدہ رکھنے والا پی آر اے کا ممبر تو رہے گا مگر پی آر اے کے کسی بھی عہدہ کے لیے انتخاب لڑنے کا اہل نہیں ہوگا‘ پی آر اے کا انتخاب لڑنے سے پہلے دوسری صحافتی تنظیم کے عہدہ سے استعفی دینا لازم ہوگا پی آر اے کے کسی بھی عہدیدار کو کسی بھی دوسری صحافتی تنظیم کا انتخاب لڑنے کے لیے پہلے پی آر اے کے عہدہ سے استعفی دینا ہوگا اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو جس روز تصدیق ہوگی کہ اس نے پریس کلب یا کسی صحافتی تنظیم‘ یونین کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی پی آر اے کو استعفی دیے بغیر جمع کرائے ہیں اسی تاریخ سے پی آر اے کا اس کا عہدہ خالی تصور کیا جائے گا

آرٹیکل 3
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کی رکنیت
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کی رکنیت کی تین اقسام ہوں گی
۱……کونسل ممبر‘ ووٹ ڈالنے اور انتخاب میں حصہ لینے کا اہل ہوگا
۲…… ایسوسی ایٹ ممبر‘ سہولیات کا حق دار تو ہوگا لیکن ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہوگا
۳……تاحیات اور اعزازی ممبران‘ اسپیکر قومی اسمبلی‘ چیئرمین سینیٹ‘ پی آر اے کے سابق صدور اور سیکرٹریز تنظیم کے تاحیات ممبر ہوں گے
جب کہ دونوں ایوانوں کے ڈائریکٹرز میڈیا‘ پی آر اے کے اعزازی ممبر ہوں گے‘(تاحیات ممبرز‘ پی آر اے کے ممبر ہوں گے)

آرٹیکل 4
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کی رکنیت کے لیے اہلیت اور معیار
شق (الف) تاحیات ممبرز پی آر اے ممبر ہوں گے‘
شق(ب) 35 سالہ صحافتی تجربے کے حامل صحافی‘ جنہیں پارلیمنٹ کی کوریج کرتے ہوئے35 سال کا عرصہ ہوچکا ہے اور وہ اپنے ادارے سے ریٹائرڈ ہو چکے ہوں‘ وی پی آر اے کے تاحیات ممبرز ہوں گے تاہم انہیں ووٹ کا استحقاق نہیں ہوگا‘
شق(پ)پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن لے رکنیت ان صحافیوں کو دی جائے گی کو کسی موقر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے ہوں گے اور انہیں پارلیمنٹ کی کوریج کی بیٹ ملی ہوئی ہوگی‘ سینیئر صحافی سے مراد صحافتی تجربہ15 سال کا ہوگا
شق(ت)موقر پرنٹ اور لیکٹرانک میڈیا پرسنز سے وابستہ وہ سینیئر صحافی جو اگرچہ بطور پارلیمانی رپورٹر باقاعدہ کام نہیں کرتے مگر وہ اپنا تجزیہ‘ وی لاگ‘ کالم لکھنے کے لیے پارلیمانی پریس گیلری کا وزٹ کرتے رہتے ہیں انہیں بطور اعزازی ممبر پریس گیلری کے لیے کارڈ‘ گاڑی کا مالک ہونے کی صورت میں اسٹکر سمیت پی آر اے فورم کی تمام سہولیات کے استعمال کا استحقاق ہوگا‘ تاہم انہیں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہوگا‘
شق(ٹ) تاحیات ممبرز کے لیے حتمی فیصلہ پی آر اے کی ایگزیکٹو باڈی ہی کرے گی‘ تاحیات ممبرز پی آر اے کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے
کونسل ممبرز وہی تصور کیے جائیں گے جو پارلیمنٹ کے دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک ایوان کی کارروائی کی کوریج کے لیے اپنے صحافتی اداروں کی جانب سے مامور ہوں گے
یو ٹیوبرز‘ ایڈیٹرز‘ ڈائریکٹرز‘ مالکان اخبارات‘ مالکان ٹی وی چینل‘ مارکیٹنگ کے شعبہ سے میڈیا کے اداروں کے افراد‘ پروڈیوسرز پی آر اے کے ممبر بننے کے اہل نہیں ہوں گے

شق(ث) ایسے افراد جو صرف یو ٹیوبرز کے طور پر کام کرتے ہیں‘ وہ پی آر اے کے ممبر نہیں بن سکتے
شق(ج) صرف کونسل ممبر ہی پی آر اے کے انتخابات میں ووٹ ڈال سکے گا

نئے صحافی پارلیمنٹ کی کوریج پر مامور ہوتے ہوئے پہلے پی آر اے

شق(چ) پانچ سال کے صحافتی تجربہ کے حامل صحافی‘ جو پارلیمنٹ کی کوریج کرتے ہیں‘ کسی وجہ سے پی آر اے کے ممبر نہیں بن سکے‘ وہ اپنے پانچ سالہ صحافتی تجربہ کا عملی ثبوت فراہم کرکے پی آر اے کے کونسل ممبر بن سکتے ہیں‘ جس کے لیے پی آر اے کی ایگزیکٹو باڈی کو باقاعدہ درخواست دینا لازم ہے
پی آر اے کی ممبر شپ کے لیے ایگزیکٹو باڈی کو باقاعدہ درخواست دینا لازم ہوگا
شق(ح) چیئرمین سینیٹ‘ اسپیکر قومی اسمبلی پی آر اے کے سرپرست اعلی ہوں گے
آرٹیکل4
پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی رکنیت کے لیے اہلیت اور معیار
شق)الف)
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کی رکنیت کی ایسے صحافیوں کو دی جائے گی جو کسی موقر روزنامہ‘ نیوز چینل‘ یا خبر رساں ادارے(جو کم از کم پانچ سال سے قومی اور علاقائی اخبارات کو سروس فراہم کر رہی ہو) کے ساتھ وابستہ ہوں گے اور راولپنڈی یا اسلام آباد میں ہیڈ آفس یا بیورو آفس کے ساتھ منسلک ہوتے ہوئے اپنے ادارے کی جانب سے پارلیمنٹ کی کوریج پر مامور ہوں گے کونسل ممبر بننے کے لیے کم از کم صحافتی تجربہ پانچ سال اور پارلیمنٹ کی کوریج کا تجربہ ریگولر تین سال ہونا لازم ہوگا‘ پانچ سال سے کم صحافتی تجربہ رکھنے والے صحافی جو پارلیمان کی کوریج کا کم ا ز کم دو سال ریگولر تجربہ رکھتے ہوں گے‘ ایسو سی ایٹ ممبر بننے کے اہل ہوں گے ایسو سی ایٹ ممبرز کو کونسل ممبرز کے معیار پر پورا اترنے کے بعد گورننگ باڈی کی منظوری سے کونسل ممبر بنایا جاسکے گا
شق(ب)
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کا کوئی کونسل ممبر‘ جو اپنے صحافتی ادارہ کی تبدیلی کے بعد پارلیمنٹ کی بیٹ ملنے کی صورت میں بدستور کونسل ممبر رہنے کا اہل ہوگا اس کونسل ممبر کے لیے نئے صحافتی ادارہ کا اتھارٹی لیٹر‘ سیکرٹری پی آر اے کو فراہم کرنا لازمی ہوگا‘ ممبر شپ کی فہرست میں اس کونسل ممبر کے ادارہ کا نام شامل(تبدیل) کردیا جائے گا

شق(پ)
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کا ایسا کونسل ممبر جو اپنے صحافتی ادارے کی ملازمت سے کسی بھی وجہ سے الگ ہوجائے یا اس سے پارلیمنٹ کی کوریج کی ذمہ داری واپس لے لی جائے‘ اسے گورننگ باڈی کی منظوری سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے تین سیشن کے داخلہ کارڈ جاری کیے جاسکیں گے جس کے بعد اس کونسل ممبر کی رکنیت‘ شق(ب) میں دی جانے والی شرائط پورا کرنے تک معطل رہے گی‘
کونسل ممبر کے کسی بھی صحافتی ادارے سے الگ ہوجانے اور پارلیمنٹ کی بیٹ نہ ملنے کی صورت میں تین ماہ تک رکنیت رہے گی‘ اور صورت حال بدستور جاری رہنے پر رکنیت چھ ماہ بعد معطل ہوجائے گی اور پارلیمنٹ کی بیٹ نہ ملنے کی مدت کے ایک سال کے بعد رکنیت منسوخ کردی جائے گی اور اس فیصلے کی اطلاع بھی مذکورہ ممبر کو دی جائے گی‘ اور اگر ایک سال کی مدت سے قبل ممبر دوبارہ کسی صحافتی ادارہ کو جائن کرلیتا ہے اور اسے پارلیمنٹ کی کاکارروائی کی کوریج کی بیٹ مل جاتی ہے تو اس کو دوبارہ کونسل ممبر بنا لیا جائے گا‘ کونسل ممبر کی رکنیت(شق ب) میں دی گئی شرائط کے مطابق تین ماہ تک بحال رہے گی‘ چھ ماہ کے بعد رکنیت معل ہوجائے گی اور ایک سال کے بعد رکنیت منسوخ ہوجائے گی‘ اس کی اطلاع متعلہ ممبر کو دی جائے گی‘ رکن برخاستگی کی صورت میں تین دن کے اندر اندر ایگزیکٹو باڈی کو اپیل کر سکتا ہے جس کا فیصلہ تین دن کے اندر اندر کرنا لازم ہوگا اگر تین دن کے اندر اندر اپیل کا فیصلہ نہ ہوا تو اس کی رکنیت بحال تصور کی جائے گی‘ اگر کوئی رکن پی آر اے ایک سال کی مدت سے پہلے دوبارہ کوئی صحافتی ادارہ جوائن کرلیتا ہے اورا سے پارلیمنٹ کی کوریج کی بیٹ بھی مل جاتی ہے تو ایگزیکٹو باڈی اس کی رکنیت بحال کرسکتی ہے‘ جس کے لیے اسے باقاعدہ درخواست دینا ہوگی

شق(ت)
ایسے معروف صحافتی اداروں سے منسلک پاکستانی شہریت کے حامل صحافی جو پارلیمنٹ کی کارروائی کور کرتے ہیں وہ آئینی طور پر طے شدہ قواعدو ضوابط کے مطابق پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کے کونسل اور ایسو سی ایٹ ممبر بننے کے اہل ہوں گے
شق(ث)
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کی رکنیت کے لیے درخواست پی آر اے کے سیکرٹری کو دی جائے گی‘ صدر کی منظوری کے بعددرخواست پر حتمی فیصلہ گورننگ باڈی کے اجلاس میں کیا جائے گا
شق(ث) پی آر اے ارکان سالانہ فیس اداتیگی کے پابند ہوں گے‘ جس کا تعین گورننگ باڈی کرے گی

شق(ج) پارلیمانی رپورٹز ایسوسی ایشن کے کونسل ممبر کے لیے لازم ہوگا کہ وہ سالانہ فیس ادا کریں گے‘ اگر کوئی اخبار‘ نیوز چینل یا نیوز ایجنسی کسی رپورٹر کو پارلیمنٹ کی بیٹ سونپے تو وہ پی آر اے کے سیکرٹری کو ادارے کی جانب سے جاری اتھارٹی لیٹر فراہم کرے گا پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی گورننگ باڈی اس کے صحافتی اور پارلیمانی کوریج کے تجربہ کو دیکھتے ہوئے ایسو سی ایٹ ممبر یا کونسل ممبر بنانے کا فیصلہ کرے گی

شق(چ)
پی آر اے کے ممبر کے خلاف انضباطی کارروائی
پی آر اے کے کسی رکن کی طرف سے کسی دوسرے دوسرے رکن کے خلاف ضابطے کی سنگین خلاف ورزی پر پی آر اے کے صدر کو تحریری درخواست دی جاسکے گی یا ایگزیکٹو باڈی کو بھی نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہوگا یہ معاملہ انکوائری کے لیے انضباطی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا‘ جو متعلقہ فریقین کا موقف سننے اور چھان بین کے بعد پندرہ دنوں کے اندر اندر ایگزیکٹو باڈی کو اپنی رپورٹ سے آگاہ کرے گی‘ ممبر کو فیصلے پر اپیل کا حق دیا جائے گا اور فیصلہ بھی سادہ اکثریت سے ہوگا

آرٹیکل5
پارلیمانی رپورٹز ایسو سی ایشن کے صدر کی ذمہ داریاں
شق(الف) صدر‘ پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کی معمول کی سرگرمیوں کے حوالے سے متعلق فیصلے کرنے کا مجاز ہوگا‘ صدر پالیسی امور کے حوالہ سے فیصلہ سازی‘ گورننگ باڈی‘ اور انتظامی امور پر فیصلہ انتظامی کمیٹی کی مشاورت سے کرے گا‘ صدر کو فوری یا ہنگامی نوعیت کے امور پر‘ رابطے کے جدید ذرائع(ای امیل‘ موبائل فون‘ واٹس ایپ) کے استعمال کے ذریعے گورننگ باڈی سے مشاورت کے ساتھ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل حاصل ہوگا‘ یعنی سرکولیشن سمری کے ذریعے بوقت ضرورت فیصلے کیے جاسکیں گے
شق(ب)
صدر‘ سیکرٹری کی مشاورت سے گورننگ باڈی کا اجلاس طلب کرے گا‘ صدر پی آر اے جب ضروری سمجھے‘ سیکرٹری پی آر اے کی مشاورت سیجنرل کونسل کا اجلاس طلب کرسکے گا
اجلاس کا باقاعدہ ایجنڈہ جاری کیا جائے گا‘ البتہ ضرورت کے تحت صدر پی آر اے کسی بھی ایشو کو زیر بحث لانے کی اجازت دینے کا مجاز ہوگا
صدر جب ضروری سمجھے سیکرٹری کی مشاورت سے جنرل کونسل کا اجلاس طلب کرسکے گا
اجلاس کا ایجنڈہ جاری کیا جائے گا‘ 5 ممبرز کی درخواست پر ریکوزیشن اجلاس صدر پی آر اے ایک ہفتے میں اجلاس بلانے کا پابند ہو گا
شق(پ)
پارلیمانی‘ حکومتی‘ سیاسی اور دیگر فورم پر پی آر اے کی نمائندگی پی آر اے کا صدر کرے گا‘ جب کہ حسب ضرورت سیکرٹری یا ایگزیکٹو باڈی کا کوئی بھی رکن(جس کا فیصلہ ایگزیکٹو باڈی کرے گی) صدر کی معاونت کرے گا اور کسی بھی ادارے سے خط و کتابت سیکرٹری پی آر اے صدر پی آر اے کی مشاورت سے کرے گا
صدر اور سیکرٹری میں اختلاف رائے کی صورت میں حتمی فیصلہ ایگزیکٹو باڈی کرے گی
شق(ت) سیکرٹری کے بیرون ملک دورے یا پندرہ روز سے زائد رخصت پر ہونے کی صورت میں جوائنٹ سیکرٹری‘ قائم مقام سیکرٹری کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرے گا‘ صدر کی منظوری سے قائم مقام سیکرٹری کی مخصوص دورانیے کے تعیناتی کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کرے گا‘ سیکرٹری کی عمومی حالات میں عدم موجودگی میں بھی جوائنٹ سیکرٹری‘ گورننگ باڈی کے اجلاس کی کارروائی چلائے گا‘ سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری‘ دونوں کی عدم موجودگی میں سیکرٹری اطلاعات اجلاس کی کارروائی چلائے گا

آرٹیکل 7
خزانچی کے اختیارات اور ذمہ داریاں
شق (الف) تنظیم کے مالی امور کا انچارج خزانچی ہوگا‘ وہ آمدن اور اخراجات رکھنے کا پابند ہوگا‘ ممبرز سے سالانہ فیس کی وصولی اس کی ذمہ داری ہوگی
شق(ب) پی آر اے کے اخراجات کی کم از کم سہہ ماہی رپورٹ گورننگ باڈی میں منظوری کے لیے پیش کرے گا‘ سہہ ماہی رپورٹ کے ساتھ سالانہ بنیاد پر بھی بجٹ آمدن اور اخراجات کی رپورٹ پر نئے مالی سال کے پہلے گورننگ باڈی اور اس کے بعد سالانہ جنرل کونسل اجلاس میں بھی تحریری دستاویز کی شکل میں پیش کرے گا اور منظوری لے گا
شق(ب) خزانچی کو ہنگامی ضرورت کی صورت میں صدر اور سیکرٹری کی باہمی رضامندی‘ پیشگی منظوری سے بیس ہزار روپے تک کے اخراجات کرنے کا اختیار حاصل ہوگا ایسے اخراجات کے بعد ہونے والے منعقد ہونے والے گورننگ باڈی کے اجلاس سے وجوہات ہنگامی صورت کی نوعیت بھی ریکارڈ پر لا کر منظوری حاصل کرنا ضروری ہے
شق(پ) پی آر اے کا بنک کاؤنٹ کھولاجائے گا‘ تنظیمی اکاؤنٹ کے چیک پر صدر‘سیکرٹری اور خزانچی میں سے کسی دو کے دستخطوں سے رقم نکالی جاسکے گی

آرٹیکل8
سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری
شق(الف) پی آر اے کی تقریبات‘ میٹنگزاور فیصلوں پر پریس ریلیز جاری کرنا‘ پی آر اے کی ویب سائٹ‘ سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا میڈیا پر پبلسٹی کرنا اور ریکارڈ رکھنا سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری ہوگی تاہم یہ فریضہ پی آر اے کی سرگرمیوں اورصرف ممبرز پی آر اے تک محدود ہوگا
شق(ب) صدر‘ سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات کی باہمی مشاورت سے پریس ریلیز جاری کی جائے گی

آرٹیکل 9
گورننگ باڈی کے اختیارات
شق (لف) پی آر اے کے تمام انتظامی و مالیاتی اور دیگر فیصلے کرنے کی مجاز‘اتھارٹی گورننگ باڈی ہوگی گورننگ باڈی تمام فیصلے حاضر ارکان کی کثرت رائے سے کرے گی‘ باڈی کے اجلاس کے لیے کورم ایک چوتھائی ہونا لازم ہوگا گورننگ باڈی کا اجلاس ہر ماہ باقاعدگی سے منعقد کیا جائے گابا امر مجبوری60 روز کا وقفہ ممکن ہوسکے گا
شق(ب) پی آر اے کمیٹیوں کی تشکیل صدر کی نامزدگی کے ساتھ گورننگ باڈی کی منظوری سے مکمل ہوگی گورننگ باڈی کو واک آؤٹ کمیٹی انتظامی کمیٹی‘ انضباطی کمیٹی اور دیگر ضروری تصور کی جانے والی کمیٹیوں کے قیام کی منظوری دینے کا اختیار ہوگا
شق(پ) کمیٹی کے چیئرمین سمیت کسی بھی کمیٹی میں پانچ سے زائدممبرز مقرر نہیں کیے جا سکیں گے‘ منتخب گورننگ باڈی کے عہدیداروں میں سے کسی کمیٹی میں ایک سے ذیادہ رکن کو شامل نہیں کیا جائے گا‘ باقی اراکین جنرل کونسل سے شامل کیے جائیں گے
شق(ت) آمدنی اور اخراجات کی رپورٹ یا کارکردگی رپورٹ جنرل کونسل میں پیش کرنے سے قبل گورننگ باڈی سے اس کی منظوری لینا لازم ہوگا
شق(ٹ) پی آر اے کی کونسل رکنیت یا ایسو سی ایٹ رکنیت کی حتمی منظوری دینے کا اختیار گورننگ باڈی کا ہوگا کسی رکن کی رکنیت کی معطلی یا اخراج کا اختیار بھی گورننگ باڈی کے پاس ہوگا تاہم اس کے لیے متعلقہ رکن کو اپنے حق میں صفائی پیش کرنے کا حق دیا جائے گا
شق(ث) پی آر اے کی گورننگ باڈی کو پی آر اے کے آئین پر عمل درآمد کو یقنی بنانے کے لیے اور آئین پر عمل درآمد کے حوالے سے رولز بنانے کا اختیار ہوگا کوئی بھی قاعدہ‘ رول‘ پی آر اے کے آئین کی اساس اور بنیادی اصولوں کے خلاف نہیں بنایا جاسکے گا
شق(ج) پی آر اے کی گورننگ باڈی رولز میں ترمیم کا مجوزہ مسودہ گورننگ باڈی کے ممبرز کو اجلاس سے کم از کم تین دن پہلے دینا ضروری ہوگا‘ اگر تین دن پہلے رولز میں ترمیم ممبرز کو فراہم نہ کی گئی ہوتو گورننگ باڈی اس ترمیم پر حتمی فیصلہ تین دن کے لیے موئخر کرے گی‘ گورننگ باڈی سے رولز کی منظوری لینا لازم ہوگا
شق(چ) رکنیت کے لیے درخواست صدر یا سیکرٹری کے نام پی آر اے کے دفتر میں دی جائے گی‘ درخواستوں کی تعداد10 ہونے پر متعلقہ درخواست گزار کو آگاہ کیا جائے گا درخواست پر فیصلہ ایک ماہ کے اندر اندر ہوگا

آرٹیکل11
واک آؤٹ کمیٹی
شق(الف) قومی اسمبلی اور سینیٹ کی پریس گیلری سے واک آؤٹ سے متعلق فیصلہ کے لیے نو(9) سینیئر اور ریگولراراکین پر مشتمل ہوگی واک آؤٹ کمیٹی کے چیئرمین کے لیے صدر کم از کم تین سینیئر ممبرز پر مشتمل پینل گورننگ باڈی میں پیش کرے گا گورننگ باڈی ان تین ناموں میں سے ایک نام کی واک آؤٹ کمیٹی کے چیئرمین کے لیے منتخب کرنے کی منظوری دے گی صدر کی جانب سے پیش کیے جانے والے تین ناموں میں کسی ایک نام پر بھی اتفاق نہ ہوتو صدر ایک ہفتے کے اندر اندر گورننگ باڈی میں تین مذید نام پیش کرے گاکسی ایک کا انتخاب کرے گی اور اگر اس کے باوجود بھی فیصلہ نہ ہو تو گورننگ باڈی دو تہائی اکثریت سے واک آؤٹ کمیٹی کے چیئرمین کا انتخاب کرے گی
شق(ب)
گورننگ باڈی کوواک آؤٹ کمیٹی کے چیئرمین یا کسی رکن کو دو تہائی اکثریت سے تبدیل کرنے اختیار ہوگا‘ نئے چیئرمین اور ارکان کی تقرری کے لیے آرٹیکل11 کی شق (الف) میں دیے گئے طریقہ کار کو اختیار کیا جائے گا
شق(پ)
واک آؤٹ کمیٹی گورننگ باڈی کی جانب سے کسی معاملے پر واک آؤٹ کا معاملہ سپرد کیے جانے کے بعد ہی اس پر فیصلہ کرسکے گی اور یہ فیصلہ کثریت رائے سے ہوگا گورننگ باڈی کسی معاملے پر واک آؤٹ کے لیے واک آؤٹ کمیٹی کو کم ازکم ایک دن کا نوٹس دے گی چیئرمین واک آؤٹ کمیٹی کسی مسلۂ پر قومی اسمبلی یا سینیٹ کی پریس گیلری سے واک آؤٹ کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کے حوالے سے پی آر اے کے صدر یا سیکرٹری کو تحریری طور پر آگاہ کرنے کا پابند ہوگا

آرٹیکل 12
انتظامی کمیٹی سات ارکان پر مشتمل ہوگی جن میں صدر‘ نائب صدر‘ سیکرٹری‘ فنانس سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات بالحاظ عہدہ رکن ہوں گے جب کہ دو ارکان جنرل کونسل سے لیے جائیں گے صدر کی جانب سے نامزدگی پر ان کے ناموں کی حتمی منظوری گورننگ باڈی دے گی
آرٹیکل13
شق (الف) ڈسپلنری کمیٹی‘ چیئرمین سمیت پانچ سینیئر ارکان پر مشتمل ہوگی جن میں چیئرمین کا صحافتی تجربہ کم از کم پندرہ سال ہوگا چیئرمین کی تقرری چیئرمین واک آؤٹ کمیٹی کے طریق کار کے مطابق ہی ہوگی
شق(ب) انضباطی کمیٹی گورننگ باڈی کی دی گئی مدت کے اندر کام مکمل کرے گی اور اس کی سفارشات کی روشنی میں کسی بھی رکن کے خلاف حتمی فیصلہ کرے گی
آرٹیکل 14
جنرل کونسل کے اختیارات
شق(الف) پی آر اے کی جنرل باڈی تمام کونسل ممبرز پر مشتمل ہوگی‘ جنرل کونسل کا اجلاس صدر پی آر اے کی صدارت میں ہوگا
شق(ب) جنرل کونسل کا اجلاس اگر منتخب باڈی کے پہلے سال کی مدت مکمل ہونے پر نہ بلایا جائے تو پی آر اے کے ساٹھ(60) ممبرز کے دستخطوں کے ساتھ جنرل کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست دی جاسکے گی‘ ایسی درخواست کے پندرہ(15) دن کے اندر اندر صدر جنرل کونسل کا اجلاس بلانے کا پابند ہوگا
شق(پ) جنرل کونسل کا اجلاس اگر منتخب باڈی کی مدت مکمل ہونے کے آخر میں بلایا جائے تو دونوں سالوں کے دوران پی آر اے کے سالانہ حسابات(آمدن اور اخراجات) پیش کرنا لازم ہوگا‘ جنرل باڑی ان حسابات کی حتمی منظوری دے گی
شق(ت) جنرل کونسل کے اجلاس میں دونوں سالوں کے دوران جتنے نئے ممبرز بنائے جائیں یا جن کی رکنیت ختم ہوجائے‘ ان کی تفصیلات اور فہرست جنرل کونسل میں پیش کی جائے گی
شق(ٹ) پی آر اے کے آئین میں کسی بھی ترمیم کی منظوری کا اختیار جنرل کونسل کے پاس ہوگا
شق(ث) گورننگ باڈی کی دو سالہ مدت جنرل کونسل کے کم از کم دو اجلاسوں کا انعقاد لازم ہوگا‘ پی آر اے کے آئین میں کسی بھی ترمیم کی منظوری ایگزیکٹو باڈی کا اختیار ہوگا‘ جس کی توثیق جنرل کونسل کے حاضر ارکان کی سادہ اکثریت سے لی جائے گی‘ اور جنرل کونسل کے اجلاس کے لیے حاضری کا کورم 50 کونسل ممبرز پر مشمل ہوگا
شق (ٹ)
پی آر اے کے آئین میں ترمیم کی منظوری کا اختیار جنرل کونسل کے پاس ہوگا
آرٹیکل 15
انتخابی عمل
شق(الف) پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کے انتخابات ہر دو سال کے بعد ہوں گے گورننگ باڈی اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے پانچ رکنی الیکشن کمیٹی کی منظوری دے گی‘ چیئرمین اور دو ارکان کی جنرل کونسل سے ہوں گے جن کو الیکشن سے متعلق پی آر اے کے آئین اور قواعد و ضوابط کی روشنی میں تمام فیصلے کرنے کا حتمی اختیار ہوگا الیکشن کمیٹی کے دیگر دو ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کے میڈیا ڈائریکٹریٹ کے سربراہان ہوں گے جن کی ذمہ داری انتخابی عمل کے دوران ضروری سہولیات کی فراہمی کے لیے الیکشن کمیٹی کی معاونت تک محدود ہوگی
شق(ب)
الیکشن کمشن کے دیگر دو ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کے میڈیا ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ ہوں گے جن کی ذمہ داری انتخابی عمل کے دوران ضروری سہولیات کی فراہمی کے لیے الیکشن کمشن کی معاونت تک ہی محدود ہوگی
آرٹیکل 16
انتخابات کا طریق کار
الیکشن کمیٹی صدر‘ ایک نائب صدر‘ ایک سیکرٹری‘ ایک جوائنٹ سیکرٹری‘ ایک سیکرٹری اطلاعات‘ ایک خزانچی‘ اور گورننگ باڈی کے سات ارکان کے عہدوں پر انتخاب کے لیے شیڈول جاری کرے گی
(ب) آرٹیکل15 کی شق (الف) میں درج عہدوں پر الیکشن کمیٹی کاغذات نامزدگی کی وصولی‘ اعتراضات‘ حتمی فہرست کا اجراء اور انتخابی عمل منعقد کرنے کے حوالے طریقہ کار وضع کرنے کی پابند ہوگی
شق(پ) پی آر اے کا کوئی بھی امیدوار ایک سے زائد عہدوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مجاز ہوگا مگر کوئی بھی امیدوار کسی ایک عہدے پر ہی الیکشن لڑ سکے گا‘ مگر امیدوار ایک عہدہ کے لیے ایک سے زائد کاغذات نامزدگی جمع کراسکے گا ایک عہدے کے لیے اضافی کاغذات نامزدگی فارم جمع کرا نے پر اضافی فیس وصول نہیں کی جائے گی تاہم اگر نامزدگی کوئی امیدوار الگ الگ عہدوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گا تو ہر عہدے کے لیے الگ الگ فیس جمع کرائے گا کاغذات نامزدگی کے لیے تمام عہدوں کی فیس کا تعین الیکشن کمیٹی کرے گی کسی بھی عہدے کے لیے ایک ہزار روپے سے زائد فیس نہیں رکھی جا سکے گی
شق(ت)
ایک ووٹر کو ایک ہی عہدے کے لیے صرف ایک امیدوار کے لیے تجویز اور تائید کنندہ ہونے کا اختیار ہوگا ایک سے زائد امیدواروں کو ایک عہدے کے لیے تجویز اور تائید کرنے کی صورت میں مذکورہ فارم کے حامل امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد تصور کیے جائیں گے

صدر‘ نائب صدر‘ سیکرٹری خزانچی اور سیکرٹری اطلاعات کے عہدے کے لیے مسلسل دو ٹرم سے زائد بار الیکشن نہیں لڑا جاسکے گا ایک ٹرم کے وقفے کے بعد دوبارہ انتخاب میں حصہ لے سکے گا‘

شق(ث)
کسی بھی دوسری صحافتی تنظیم یا پریس کلب کا عہدیدار پی آر اے کے کسی بھی عہدے کے لیے الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہوگا‘ پی آر اے کا الیکشن لڑنے کے لیے اسے پہلے اپنے تنظیمی عہدے سے استعفی دینا ہوگا اورا ستعفی کی منظوری کا دستاویز ثبوت کاغذات نامزدگی ساتھ الیکشن کمیٹی کو لازمی فراہم کرنا ہوگا‘ پی آر اے کے انتخاب کے لیے کسی بھی دوسری تنظیم یا پریس کے کسی پینل کا نام استعمال کرنے پر پابندی ہوگی اگر کوئی امیدوار اعلانیہ ایسا کرے گا اور ثابت ہوجانے پر الیکشن کمیٹی اسے نااہل قرار دے سکے گی

شق(ج) پی آر اے کے عہدیداروں کے لیے کسی دوسری صحافتی تنظیم یا پریس کلب کے کسی عہدہ کا انتخاب لڑنے کے لیے اپنے عہدے سے استعفی دینا لازم ہوگا اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو کسی دوسرے انتخاب کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ سے اس کا عہدہ خالی قرار پائے گا

شق (چ) پی آر اے کبھی کسی صحافتی تنظیم یا پریس کلب کے انتخاب میں بطور تنظیم کسی پینل کی حمائت یا مخالفت کا اعلان نہیں کرے گی اور نہ ہی کوئی عہدیدار کسی پینل کی تشہیری اور انتخابی مہم کا حصہ بنے گا اگر کسی پینل نے پی آر اے کے کسی عہدیدار کا نام یا تصویر استعمال کی تو پی آر اے اور متعلقہ عہدیدار اس کی تردید کرے گا
آرٹیکل 17
فیس کی ادائیگی

شق(الف) پارلیمانی رپورٹز ایسوسی ایشن کے کونسل ممبر کے لیے لازم ہوگا کہ وہ 15مئی تک ہر سال اپنی فیس جمع کرادیں‘ مقرر وقت تک فیس جمع نہ کرانے والوں کو31 مئی تک مہلت دی جائے گی‘ اس کے بعد 15 جون تک کا وقت دیا جائے گا اس کے بعد کونسل ممبرز کی حتمی فہرست جاری کر دی جائے گی‘ اسی فہرست پر انتخابات ہوں گے‘ یہ فہرست سیکرٹری اور صدر پی آر اے کے دستخط سے جاری ہو گی

شق(ب) فیس کی ادائیگی سب ممبرز کے لیے لازمی ہے جو ممبرز الیکشن میں حصہ لیں گے ان کے کاغذات نامزدگی اس صورت میں قبول کیے جائیں گے جب ان کی فیس کے تمام واجبات ادا کیے گئے ہوں گے‘اسی طرح ان کے تجویز اور تائید کنندہ کے واجبات بھی ادا ہونے لازمی ہیں‘ اگر کسی ممبر نے کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی پردستخط کیے ہوں گے اور ان کے واجبات ادا نہیں ہوئے ہوں گے تو اس امیدوار کے کاغذات نامزدگی منظور نہیں کیے جائیں گے
شق (پ)
کوئی بھی ممبر اپنے علاوہ صرف ایک ممبر کی فیس جمع کراسکے گا
شق(ت)
الیکشن کمشن کا فیصلہ حتمی ہوگا اورا سے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا‘ تاہم فیصلے پر اپیل کی صورت میں الیکشن کمیٹی فیصلے پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے‘ پی آر اے کے جو ممبرز الیکشن میں حصہ لینے کے امیدوار ہوں گے نا کے کاغذات نامزدگی اس صورت میں قبول کیے جائیں گے جب ان کی جانب سے فیس اور تمام واجبات ادا کیے گئے ہوں گے
شق(ٹ)
پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کے ممبرز کے لیے لازم ہوگا کہ وہ 15 مئی تک ہر سال اپنی فیس سیکرٹری فنانس کے پاس جمع کرادیں‘ مقرر وقت تک فیس جمع نہ کرانے والے ممبرز کو صرف ایک بار ایک ہفتے کا وقت دیا جائے گا اس کے بعد فیس جمع نہ کرائی گئی تو اس ممبر کی ممبز شپ مسوخ کردی جائے گی کوئی ممبر اپنے علاوہ صرف ایک ممبر کی فیس جمع کراسکے گا
15 مئی کے بعد31 مئی تک مہلت دی جائے‘ اس کے بعد15 جون تک مہلت دی جائے‘ الیکشن ڈے پر فیس وصول نہیں ہوگی‘ 20 جون تک جن ممبرز نے فیس ادا کی ہوگی ان کی حتمی فہرست صدر اور سیکرٹری کے دستخطوں کے ساتھ جاری کی جائے گی اور اسی فہرست میں شامل ممبرز کو ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا
شق (ث) الیکشن کمیٹی کا فیصلہ حتمی ہوگا اسے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا البتہ اپیل کی صورت میں الیکشن کمیٹی فیصلے پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے
شق(ج) الیکشن کمیٹی پولنگ کے اختتام پر اسی روز نتائج کا اعلان کرے گی‘ اور کامیاب امیدواروں کا نوٹیفیکیشن جاری کرے گی‘ نوٹیفیکیشن کے اجراء کے بعد منتخب گورننگ باڈی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے گی اور فرائض کی ادائیگی شروع کردے گی اس کے لیے حلف اٹھانا لازمی نہیں ہے

آرٹیکل18
گورننگ باڈی پی آر اے کے آئین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے آئین میں دی گئی شقوں کو مذید وا۔ح کرنے کے لیے رولز بنا سکے گی اور مگر رولز کا ڈرافٹ گورننگ باڈی کے ممبرز کو اجلاس سے تین دن قبل صدر‘ سیکرٹری فراہم کرنے کا پابند ہوں گے

آئین میں ترمیم کے لیے بنائی گئی کمیٹی

رانا غلام قادر……………… چیئرمین
سیکرٹری آصف بشیر چوہدری
عاصم یسین ………… ممبر
ملک سعید اعوان……………… ممبر
عائشہ ناز…………………… ممبر
رانا طارق…………………… ممبر
انتظار حیدری……………… ممبر
میاں منیر احمد……………… ممبر
ایگزیکٹو باڈی
صدیق ساجد………… صدر
آصف بشیر چوہدری……………… سیکرٹری
لالہ احمد نواز………… نائب صدر
میاں منیر احمد………… جائنٹ سیکرٹری
ملک سعید اعوان ………… سیکرٹری اطلاعات
انتظار حیدری………… سیکرٹری فنانس
عاصم یاسین ………… ممبر گورننگ باڈی
عائشہ ناز……………… ممبر گورننگ باڈی
حافظ عبدالماجد………… ممبر گورننگ باڈی
زاہد یعقوب خواجہ………… ممبر گورننگ باڈی
صبا باجیر……………………ممبر گورننگ باڈی

Skip to content